اے وادیٔ کشمیر








شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ

صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان و نائب صدر جامعہ دارالعلوم کراچی

اے وادیٔ کشمیر


تو حُسن کا پیکر ہے،تو رعنائی کی تصویر

مخمور بہاروں کے حسیں خواب کی تعبیر

رخشاں ہے ترے ماتھے پہ آزادی کی تنویر

تو جلوہ گہِ نورِ جہاں،نورِ جہانگیر

اے وادیٔ کشمیر! اے وادیٔ کشمیر!

ہر لمحہ مچلتی ہیں ترے من میں بہاریں

مےخانہ در آغوش درختوں کی قطاریں

چشموں کے ترانے ہیں کہ ساون کی ملہاریں

ندیوں میں تری نغمۂ آزادی کی تفسیر

اے وادیٔ کشمیر! اے وادیٔ کشمیر!

کیوں تیری فضاؤں پہ اُداسی کے نشاں ہیں

نکھرے ہوئے گلزار بھی کیوں محوِفغاں ہیں

چشمے ترے کیوں نالہ کش و نوحہ کناں ہیں

کہسار ترے کیوں ہیں جگر بستہ و دِل گیر

اے وادیٔ کشمیر! اے وادیٔ کشمیر!

شاید تجھے مسلم کی وفاؤں سے گِلا ہے

فریاد تری سچ ہے،ترا شکوہ بجا ہے

لیکن مرے محبوب وہ وقت آن لگا ہے

گونجے گا فضاؤں میں جب اک نعرۂ تکبیر

اے وادیٔ کشمیر! اے وادیٔ کشمیر!

مانا کہ دلوں میں وہ تب و تاب نہیں ہے

اس قوم کی تلوار میں وہ آب نہیں ہے

اب عزمِ مسلماں بھی وہ سیلاب نہیں ہے

گردش میں ہے برسوں سے مری قوم کی تقدیر

اے وادیٔ کشمیر! اے وادیٔ کشمیر!

مانا تری مٹی پہ بہت خون بہا ہے

تو نے غم و آلامِ غلامی کو سہا ہے

لیکن مرے ہمدم!مرا دل بول رہا ہے

ہمّت کی حرارت سے پگھل جائے گی زنجیر

اے وادیٔ کشمیر! اے وادیٔ کشمیر!

تکبیر کا نعرہ تری عصمت کا امیں ہے

چَھٹنے کو ہے تاریکیٔ غم،مجھ کو یقیں ہے

کیا ظلمتِ شب صُبْح کی تمہید نہیں ہے؟

کیا خونِ شفق رنگ نہیں مژدۂ تنویر؟

اے وادیٔ کشمیر! اے وادیٔ کشمیر!

اب وقت ہے سینوں میں عزائم کو جگا لیں

ہم جام و سبُو توڑ کے تلوار اٹھا لیں

ہر راہِ گلستاں کو کمیں گاہ بنا لیں

کمزور ہے،لیکن ابھی ٹوٹی نہیں شمشیر

اے وادیٔ کشمیر! اے وادیٔ کشمیر!

ہیں یاد ابھی خالدو طارق کے فسانے

کچھ دور نہیں احمدو ٹیپو کے زمانے

اٹھو،کہ چلیں ظُلم کو دنیا سے مٹانے

پھر زندہ کریں دہر میں یہ اسوۂ شبّیر

اے وادیٔ کشمیر! اے وادیٔ کشمیر!

ہم کو ترے شاداب نظاروں کی قسم ہے

جہلمؔ کے دلآویز کناروں کی قسم ہے

پھولوں کی،درختوں کی،چناروں کی قسم ہے

کاٹیں گے ترے پاؤں سے ہر ظُلم کی زنجیر

اے وادیٔ کشمیر! اے وادیٔ کشمیر!

سَر حُرمتِ توحید پہ کٹوا کے رہیں گے

ہم کُفر کے طوفان سے ٹکڑا کے رہیں گے

طاغوت کے ایوان کو اب ڈھا کے رہیں گے

پیوندِ زمیں ہو گی ہر اک کفر کی تعمیر

اے وادیٔ کشمیر! اے وادیٔ کشمیر!

اک غلغلۂ نعرۂ تکبیر اٹھا کر

یہ برقِ تپاں خِرمنِ باطل پہ گرا کر

توپوں سے برستے ہوئے شعلوں میں نہا کر

ہم خوں سے لکھیں گے تری آزادی کی تحریر

اے وادیٔ کشمیر! اے وادیٔ کشمیر!

دشمن کے عزائم تری مٹّی میں ملیں گے

مدّت سے جو رِستے ہیں ترے زخم،سِلیں گے

اس خاک پے الفت کے حسیں پھول کھلیں گے

صیّاد جو اب تک تھا وہ بن جائے گا نخچیر

اے وادیٔ کشمیر! اے وادیٔ کشمیر!

پھوٹیں گے تری خاک سے پھر نُور کے دھارے

ظلمت کدۂ کفر سے پھر اٹھیں گے شرارے

گونجے گی اذانوں کی صدا ڈلؔ کے کنارے

پھر جاگ اٹھے گی تری سوئی ہوئی تقدیر

اے وادیٔ کشمیر! اے وادیٔ کشمیر!

تو خاتمِ دنیا کا اک انمول نگیں ہے

تو حُسن کا مرکز ہے،بہاروں سے حسیں ہے

آسیؔ کی نگاہوں میں تُو فردوسِ زمیں ہے

فردوس تو ہوتی نہیں شیطان کی جاگیر

اے وادیٔ کشمیر! اے وادیٔ کشمیر!

(جون ۱۹۶۵ء) 

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url